Wednesday, October 23, 2019

بڑا آپریشن-----مسئلہ اور اسکا حل

بڑا آپریشن-----مسئلہ اور اسکا حل
پاکِستان میں صورتحال واقعی تشویشناک ہے- پرائیویٹ ڈاکٹروں میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے. ڈلیوری کیلئے بلاوجہ بڑا آپریشن معمول بن چکا ہے- ایسے میں کچھ عملی تجاویز پیش خدمت ہیں-
آدھی مصیبت اسی وقت حل ہو جاتی ہے جب آپ نے اسکی خاطر پہلے سے تیاری کر رکھی ہو- ہر حمل کے دوران ذہنی اور مالی طور پر بڑے آپریشن کیلئے تیار رہیں-
مالی مسئلہ ہو تو سرکاری ہسپتال والا متبادل استعمال کریں-
حمل کے دوران بیشک 9 ماہ تک پرائیویٹ ہی چیک اپ کروائیں، لیکن کم از کم ایک بار قریبی سرکاری ہسپتال میں بھی ضرور چیک کروا لیں تاکہ وہاں کا کارڈ بن جائے اور آپ وہاں رجسٹر ہو جائیں- زیادہ بہتر ہے کہ 9 ماہ کے دوران 3 وزٹ کر لیں-
سرکاری سیٹ اپ میں رجسٹرڈ مریضہ کی نان رجسٹرڈ مریضہ کے مقابلے میں کافی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور عملہ خصوصی ذمہ داری لیتا ہے- بڑے شہروں کے لوگ اچھی شہرت والے ہسپتال اور گائنی وارڈ کا انتخاب کریں-
کوشش کریں کہ آپکی پرائیویٹ لیڈی ڈاکٹر اس سرکاری ہسپتال میں جاب نہ کرتی ہو جہاں آپ نے رجسٹریشن کروائی ہے-
لیڈی ڈاکٹر کا انتخاب شروع میں ہی پوری تسلی کے بعد کریں اور پھر اس پر مکمل اعتماد کریں-
زچہ کے وہ تمام طبی مسائل جو حمل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں انکی مکمل تشخیص اور علاج کروائیں- مثلاً حمل کی وجہ سے ہونے والی ذیابیطس، حمل کی وجہ سے ہونے والا ہائی بلڈ پریشر، جگر، دل، گردوں کا کوئی بھی مسئلہ، کسی بھی قسم کا انفیکشن، ملیریا وغیرہ- ان تمام صورتوں میں بڑے آپریشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں-
نوٹ : ناف کا بچے کے گلے کے گرد ہونے سے بڑا آپریشن ضروری نہیں ہوتا جب تک "سی-ٹی-جی" (Cardiotocography) نارمل ہو-
جس پرائیویٹ سیٹ اپ میں آپ دوران حمل معائنہ کروا رہے ہوں، یہ تسلی کر لیں کہ وہاں لیبر روم میں "سی-ٹی-جی" مشین لازمی موجود ہو- جھوٹ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس ہسپتال یا سیٹ اپ کا انتخاب کرنا ہو، پہلے وہاں جا کر کاؤنٹر پر کہیں کہ ہم نے پیشنٹ کا "سی-ٹی-جی" ٹیسٹ کروانا ہے- اگر انکے پاس مشین چالو حالت میں ہو گی تو فوراً آپکو فیس بتا کر مریضہ کو لانے کا کہیں گے، ورنہ بتا دیں گے کہ یہ سہولت موجود نہیں- بس اس دوسری صورت میں اس ہسپتال میں آپ نے دوبارہ داخل نہیں ہونا-
سی-ٹی-جی مشین لیبر کے دوران دردوں کے ساتھ بچے کے دل کی دھڑکن کا ریکارڈ دکھاتی ہے- اگر دھڑکنوں میں مخصوص ساخت کی تبدیلیاں نظر آئیں تو بڑا آپریشن عموماً ضروری ہوتا ہے-
لیبر کے دوران جب آپکو بتایا جائے کہ بڑا آپریشن ناگزیر ہے، ماں اور بچے کی جان کو خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ، تو فوراً سی-ٹی-جی رپورٹ طلب کریں- یہ آپکا حق ہے- اگر عملہ انکار کرے تو فوراً سے پہلے مریضہ کو اٹھائیں اور اس سرکاری ہسپتال لے جائیں جہاں آپ نے رجسٹریشن کروا رکھی ہے- اگر عملہ رپورٹ دے دے تو فوراً اسی سرکاری ہسپتال جا کر رپورٹ چیک کروا کر سینئر ڈیوٹی ڈاکٹر کا مشورہ لیں اور اسکے مطابق عمل کریں- اگر وہ کہہ دیں کہ بڑا آپریشن ہی ہو گا تو پھر کسی قسم کے شک کو دل میں جگہ دئیے بغیر فوری طور پر آپریشن کروا لیں-
درج ذیل صورتوں میں سے کوئی بھی صورتحال کنفرم ہو تو بڑے آپریشن میں پس و پیش نہ کریں- یہ حقیقی ایمرجنسی ہو سکتی ہے-
اَول کا بچہ دانی کے نچلے حصے پر ہونا، بچہ ٹیڑھا ہونا، ماں کا بہت چھوٹا قد یا بہت دبلا پتلا ہونا، خون جاری ہو جانا، بچے کا پیدائش سے قبل پاخانہ نکل جانا، اَول کا پھٹ جانا اور خون جمع ہو جانا، بچے کی حرکت میں غیر معمولی کمی محسوس ہونا یا کوئی بھی ایسی وجہ جسکا لیڈی ڈاکٹر نے آپ کو قبل از وقت بتا رکھا ہو کہ یہ عین وقت پر خطرے کا باعث بن سکتی ہے-
انتہائی اہم نکات
اس بات کی تسلی کر لیں کہ جس پرائیویٹ سیٹ اپ میں آپ ڈلیوری کروانا چاہتے ہیں وہاں 24 گھنٹے بچوں کا ڈاکٹر موجود ہوتا ہو- میڈیکل آفیسر یعنی زیر تربیت ڈاکٹر ہر وقت اور سپیشلسٹ ڈاکٹر آن کال دستیاب ہو جو ضرورت پڑنے پر فوراً آ سکے- بچوں کی پیدائش کے وقت ہونے والے کچھ مسائل مستقل اثرات رکھ سکتے ہیں اور ساری عمر کی معذوری کا مسئلہ بن سکتا ہے، اگر اسے پیدائش کے ساتھ ہی فوری طبی امداد دینے والا بچوں کا ڈاکٹر موجود نہ ہو-
اکثر دوران حمل ڈاکٹرز مریضہ کو ملٹی وٹامن اور دیگر ادویات طاقت کا کہہ کر استعمال کرواتی ہیں، جس سے حمل کے دوران بچے کی نشونما میں قدرتی نشونما کے حساب سے تیزی آجاتی ہے اور بچہ وقت سے پہلے بڑھ جاتا ہے، اور بچے کی حرکت وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ الٹا ہوجاتا ہے- حاملہ خاتون اگر ملٹی وٹامن سے زیادہ قدرتی غزا پر توجہ دیں اور حمل کے آخری دو مہینوں میں موسم کے حساب سے دودھ میں زیتون کا تیل اور دیسی گھی استعمال کریں تو آپریشن کے چانس بہت کم ہو جاتے ہیں-
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور ڈاکٹر طبقے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے والا بنائے...آمین
ڈاکٹر رضوان اسد

No comments:

Post a Comment