Thursday, October 24, 2019

اولاد نرینہ

اولاد نرینہ 
ماں بننا کسی بھی عورت کی زندگی کا سب سے یادگار اور جذباتی تجربہ ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں بڑا ہونے لگتا ہے اسی کے ساتھ ہی ماں کے اندر احساس ذمہ داری اور ممتا بڑھنے لگتی ہے ۔ لیکن اس کے اندر اک انجانا خوف ھوتا ھے , کے کہیں بیٹی نا آجاے تو اس پراسیس
کے دوران ایک عورت کئی مراحل سے گزرتی ہے۔ ہر تھوڑے دنوں میں کوئی نہ کوئی ٹیسٹ کبھی الٹرا ساؤنڈ ہوتا ہے ۔ الٹرا ساؤنڈ سے پتا چلتا ہے کہ بچہ کتنا بڑھ گیا ہے اور اس کی نشونما صحیح انداز میں ہو رہی ہے یا نہیں ۔ الٹرا ساؤنڈ سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بچہ نارمل ہے اور یہ کہ اس کے تمام اعضا متناسب ھیں احباب
ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لڑکے کی پیدائش کو زیادہ ترجیح اور فوقیت دی جاتی ہے ۔اکثر والدین ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہر صورت بیٹے کی ہی خواہش ہوتی ہے ۔ (یاد رکھیے کے بیٹی بھی نصیب سے عطا ھوتی ھے ) وہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں اور جب انھیں پتا چلتا ہے کہ بیٹا نہیں بیٹی ہونے والی ہے تو وہ ابارشن کا راستہ اپناتے ھیں اس ضمن میں پنجابی کی مثال عرض کروں گا ** سو سوا تے اک دھروعہ یعنی سو بچہ جنم دینا اور اک ابارشن ایک برابر کمزوری پیدا کرتے ھیں **۔کچھ طبی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کی ایجاد کے ساتھ ہی بڑی خاموشی کے ساتھ ایک منظم جرم کو فروغ دینے کا آغاز بھی ہوگیا ہے ۔ جس کے باعث ابورشن یعنی اسقاط حمل کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ ارباب اختیار کو اس پر قانون سازی کرنی چاھیے اور
بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس معلوم کرنے کی مخالفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر خواتین بچے کی جنس جاننے کے بعد ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں ۔ جب کوئی عورت ماں بننے والی ہوتی ہے تو بچے اور ماں کے درمیان ایک رشتہ بن جاتا ہے ۔ اس تجربے کے دوران ماں بچے سے ایک جسمانی اور جذباتی تعلق قائم کر لیتی ہے ۔ لیکن جب ماں کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ اس کی کوکھ میں بیٹا ہے یا بیٹی ،تویہ رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے اور اس تعلق میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے ۔
کئی معاشروں کی طرح پاکستان میں آج بھی بچے کی جنس کا ذمہ دار ماں کو ٹہرایا جاتا ہے ۔ سسرال والے اور معاشرے کے دیگر پریشر گروپ بیٹا پیدا کرنے کے لیے عورت پرزور ڈالتے ہیں جس پرحقیقت میں اس کا کوئی زور نہیں ۔یہاں تک کہ سائنسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بچے کی جنس کا تعلق ماں سے نہیں بلکہ باپ سے ہوتا ہے ۔ جب الٹرا ساؤنڈ سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ پیدا ہونے والی اولاد بیٹا نہیں بیٹی ہے تو سب کا رویہ تبدیل ہونے لگتا ہے جو عورت کے ڈپریشن میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ حمل کے دوران ہونے والا ڈپریشن، اسٹریس اور گھبراہٹ کے ساتھ مل کر ماں اور بچے دونوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔
البتہ میرے خیال میں اگر ماؤں کو بچے کی جنس کے بارے میں معلوم نہ ہو تو وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوگی۔ میرے مطابق ماں کے حقوق سے زیادہ اس کی اور اس کے بچے کی صحت زیادہ اہم ہے ۔ معالج کو اپنی توجہ ماں اور بچے کی صحت پر مرکوز رکھنی چاہیے ۔
اگر بچے کی پیدائش سے پہلے اگر جنس معلوم ہوجائے تو اس طرح گھرانوں میں جنسی تعصب کو فروغ ملتا ہے جوکہ مجموعی طور معاشرتی سوچ پر منفی اثرات مرتب کرتاہے ۔ ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہاں لڑکی کی پیدائش کو خاندان کے لیے ایک کلنک تصور کیا جاتا ہے ۔ مردوں سے خاندان کا نام چلتا ہے اس لیے سب کی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ خاندان میں زیادہ سے زیادہ بیٹے ہوں تاکہ گھرانے کا نام آگے بڑھ سکے ۔ یہ جنسی تعصب مزید بڑھ کر گھریلو تشدد ، علیحدگی اور اسقاط حمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی ایک تہائی خواتین نے خود پر ہونے والے تشدد اور دیگر مظالم کی وجہ بیٹا نہ پیدا کرپانا بتائی ہے N۔ احباب یہ عمیق موضوع ھ بات کہاں سے نکلی اور کہاں گئ تو بات شروع کی تھی سو کا بدلنا حکمت کے مقدس لبادے میں بہت سے احباب کا یہ بھی فرمانا ھ کے سو بدلنا ممکن نھی ھ اس ضمن میں فقیر گزارش کرتا ھ کے سو بدلنا ممکن ھے دوا سے بھی اور بغیر دوا کے بھی دونوں طریق عرض کر رھا ھوں 1 بغیر دوا کے سو بدلنا بوقت مباشرت انزال کے فورا بعد دائیں کروٹ لیٹ جائیں اور کوشش کریں کے بعد از مباشرت اٹھنا نا پڑے اور بعد از حمل کیلشیم والی غذا اور دائیں کروٹ سونا , لیٹنا معمول بنا لیں , 2 دوا سے سو بدلنا, نسخہ نسخہ نسہ سفوف شھدانہ تازہ ایک گرام صبح اور تخم شیولنگی تین دانے بوقت عصر ھمراہ تازہ پانی حمل کا دوسرا ماہ مکمل ھونے سے دو دن پہلے شروع کریں اور تیسرا ماہ کامل جاری رکھیں بعون الوہاب بیٹا پیدا ھو گا صاحب نسخہ کے مطابق سو ھمیشہ کے لیے تبدیل ھو جاتی ھ && یاداشت && خود ساختہ علاج سے اجتناب برتیں واللہ اعلم ابن طب ظہور احمد رضا

No comments:

Post a Comment