Saturday, November 9, 2019

نظام تولید

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے.
*** Reproductive System ***
*** نظام تولید ***
* قسط نمبر 3 *
آج کی قسط سپرم سیلز بننے کے مختلف مراحل پر تھی. مگر کچھ ساتھیوں نے قرآن پاک کی کچھ آیات کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے جن کا جواب دینا بھی ضروری ہے. کوشش کروں گا کہ اس موضوع پر کچھ گفتگو کی جا سکے.
صاحب علم ساتھیوں سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر ہم. سب کی مزید راہنمائی. فرمائیں تا کہ سب کے علم میں اضافہ ممکن ہو.
قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ
فَسْئَلُوْا اَ ھْلَ الذِّ کْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْ نَ ہ[3]
ترجمہ:۔ اہل ذکرسے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے.
جہاں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی تو ایڈوانس میں معافی و تصحیح کی گزارش ہے.
جزاک اللہ خیر.
میڈیکل سائنس کی وہ شاخ جس میں ماں کے رحم میں پرورش پانے والے جنین کی مکمل نشوونما اور تکمیل کا مطالعہ کیا جاتا ہے اسے علم جنینیات یا ایمبریولوجی Embryology کہا جاتا ہے.
قرآن میں بیسیوں آیات صرف انسان کی پیدائش کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود جنینیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔
سورہ العلق. آیت نمبر ایک تا دو
اِ قًرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ہ خَلَقَ الْاِ نْسَا نَ مِنْ عَلَقٍٍ ہ
ترجمہ:۔ پڑھو ( اے نبیۖ ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جس نے جمے ہو ئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔
یہاں عربی لفظ علقَ استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب تو خون کا لوتھڑا ہے جبکہ دوسرا مطلب کوئی ایسی چیز ہے جو چمٹ جاتی ہو یعنی جونک (Leech) جیسی کوئی شے ہو۔ حمل کے ابتدائی مرحلوں میں جنین ( Embryo) کی شکل جونک (leech) جیسی ہوتی ہے. اور جدید سائنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے.
سورہ الطارق آیت پانچ تا سات.
فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ
ترجمہ:۔پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ و زنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نمو پذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچے اُتر آتے ہیں، زنانہ تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو (pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید (inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہاؤ بھی اس سمت ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں کم ازکم گیارہ مرتبہ کہا گیاہے کہ انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا گیا ہے جس کا مطلب مائع کی نہایت معمولی مقدار یا پیالہ خالی ہوجانے کے بعداس میں لگا رہ جانے والا مائع ہے۔ یہ بات قرآن عالی شان کی کئی آیات مبارکہ میں وارد ہوئی ہے
سورہ المومنون
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَـٰنَ مِن سُلَـٰلَةٍ مِّن طِينٍ
اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے بنایا
ثُمَّ جَعَلۡنَـٰهُ نُطۡفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ
پھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں
ثُمَّ خَلَقۡنَا ٱلنُّطۡفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقۡنَا ٱلۡعَلَقَةَ مُضۡغَةً فَخَلَقۡنَا ٱلۡمُضۡغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوۡنَا ٱلۡعِظَـٰمَ لَحۡمًا ثُمَّ أَنشَأۡنَـٰهُ خَلۡقًا ءَاخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحۡسَنُ ٱلۡخَـٰلِقِينَ
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بتانے والا،
سورہ النحل
خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ مِن نُّطۡفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
(اس نے) آدمی کو ایک نِتھری بوند سے بنایا تو جبھی کھلا جھگڑالو ہے،
سورہ فاطر
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطۡفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمۡ أَزۡوَٲجًاۚ وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلۡمِهِۚۦ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنۡ عُمُرِهِۦۤ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اور اللہ نے تمہیں بنایا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر تمہیں کیا جوڑے جوڑے اور کسی مادہ کو پیٹ نہیں رہتا اور نہ وہ جتنی ہے مگر اس کے علم سے، اور جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے یہ سب ایک کتاب میں ہے بیشک یہ اللہ کو آسان ہے
سورہ یاسین
أَوَلَمۡ يَرَ ٱلۡإِنسَـٰنُ أَنَّا خَلَقۡنَـٰهُ مِن نُّطۡفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اور کیا آدمی نے نہ دیکھا کہ ہم نے اسے پانی کی بوند سے بنایا جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے
سورہ المومن
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَڪُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلاً ثُمَّ لِتَبۡلُغُوٓاْ أَشُدَّڪُمۡ ثُمَّ لِتَكُونُواْ شُيُوخًاۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبۡلُ ۖ وَلِتَبۡلُغُوٓاْ أَجَلاً مُّسَمًّى وَلَعَلَّڪُمۡ تَعۡقِلُونَ
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھرتمہیں نکالتا ہے بچہ پھرتمہیں باقی رکھتا ہے کہ اپنی جوانی کو پہنچو پھر اس لیے کہ بوڑھے ہو اور تم میں کوئی پہلے ہی اٹھالیا جاتا ہے اور اس لیے کہ تم ایک مقرر وعدہ تک پہنچو اور اس لیے کہ سمجھو
سورہ الکھف
قَالَ لَهُ ۥ صَاحِبُهُ ۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ ۥۤ أَكَفَرۡتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطۡفَةٍ ثُمَّ سَوَّٮٰكَ رَجُلاً
اس کے ساتھی نے اس سے اُلٹ پھیر کرتے ہوئے جواب دیا کیا تو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پھر تجھے ٹھیک مرد کیا
سورہ الطارق
فَلۡيَنظُرِ ٱلۡإِنسَـٰنُ مِمَّ خُلِقَ
تو چاہئے کہ آدمی غور کرے کہ کس چیز سے بنا یا گیا
خُلِقَ مِن مَّآءٍ دَافِقٍ
جَست کرتے (اچھلتے ہوئے) پانی سے،
يَخۡرُجُ مِنۢ بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآٮِٕبِ
جو نکلتا ہے پیٹھ اور سینوں کے بیچ سے
إِنَّهُ ۥ عَلَىٰ رَجۡعِهِۦ لَقَادِرٌ
بے شک اللہ اس کے واپس کرینے پر قادر ہے
مِن نُّطۡفَةٍ خَلَقَهُ ۥ فَقَدَّرَهُ ۥ
پانی کی بوند سے اسے پیدا فرمایا، پھر اسے طرح طرح کے اندازوں پر رکھا
سائنس نے حال ہی میں یہ دریافت کیا ہے کہ بیضے ( Ovum) کو بارآور کرنے کے لیے اوسطاً تیس لاکھ خلیات نطفہ (sperms) میں سے صرف ایک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خارج ہونے والے نطفے کی مقدار تیس لاکھواں حصّہ یا 0.00003 فیصد مقدار ہی بارآوری ( حمل ٹھہرانے ) کے لیے کافی ہوتی ہے۔
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآ ء مَّھِیْنٍ ہ
ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے ۔
عربی لفظ' سُللة' سے مراد کسی مائع کا بہترین حصہ خلاصہ یا جوہر ہے۔ ا ب ہم جان چکے ہیں کہ زنانہ بیضے کی بار آوری (fertilization) کے لیے مرد سے خارج ہونے والے لاکھو ں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک کی خلیہ نطفہ کو قرآن پاک نےسللة کہاہے۔ اب ہمیں یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں (ovam) میں سے صرف ایک ہی بارآور ہوتاہے۔ ہزاروں میں سے اسی ایک بیضے کے لیے ( جو بارآور ہوتا ہے ) قرآن پاک نے سللة کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا ایک اور مفہوم کسی مائع سے (کسی چیزکا) بڑی احتیاط سے اخراج بھی ہے۔ اس مائع سے مراد زنانہ اور مردانہ دونوں طرح کے تولیدی مائعات بھی ہیں جن میں صنفی تخم (gametes) موجود ہوتے ہیں۔ بارآوری کے مرحلے کے دورا ن نطفہ خلیہ اور بیضہ دونوں ہی اپنے اپنے ماحول سے بہ احتیاط جدا ہوتے ہیں.
سپرم سیل مردانہ تولیدی نظام میں رہتا ہے. بار آور کرنے والا سپرم سیل اپنے ماحول سے الگ ہو کر ہی زنانہ نظام تولید میں سفر کرتا ہوا اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے.
اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا ج
ترجمہ:۔ہم نے انسان کو ایک مخلوط(آپس میں ملے ہوئے) نطفے سے پیداکیا۔
عربی لفظ نُطْفَہٍ اَمْشاج کامطلب، ملے ہوئے مائعات ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ملے ہوئے مائعات سے مراد عورت یا مرد کے ( تولیدی) عامل (agent) یا مائعات ہیں۔ مردانہ اور زنانہ صنفی تخم (Gametes)کے باہم مل جانے کے بعد بننے والا جفتہ (zygote) بھی ابتدا میں نطفہ ہی رہتا ہے۔ باہم ملے ہوئے ( ہم آمیز) مائعات سے ایک اور مراد وہ مائع بھی ہو سکتاہے جس میں خلیات نطفہ تیر رہے ہوتے ہیں۔ یہ مائع کئی طرح کی جسمانی رطوبتوں (fluids)سے مل کربنتاہے جو کئی جسمانی غدود (glands)سے خارج ہوتی ہیں۔
لہذا نطفةٍ امشاج یعنی آپس میں ملے ہوئے مائعات کے ذریعے مردانہ و زنانہ صنفی مواد (تولیدی مائع یا خلیات) اور اس کے اردگرد مائعات کے کچھ حصّے کی جانب اشارہ کیاجا رہا ہے۔
پختہ جنین( foetus)کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتا ہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی اس کا انحصار کروموسوم کے 32 ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پر ہوتا ہے۔ ابتدائی طورپر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتاہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسوم chromosomes) sex) پر ہوتا ہے۔ جو بیضے کو بارآور کرتا ہے۔ اگر بیضے کو بارآورکرنے والے سپرم (sperm) میں x صنفی کروموسوم ہے تو ٹھہرنے والے حمل سے لڑکی پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر اسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم y ہے تو حمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہوگا۔
وَ اَنَّہ خَلَقَ الذَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ ذا تُمْنٰی ہ [9]
ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔
یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تو مائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنٰی کا مطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتاہے ۔
(جاری ہے)
Refferences :
Quraan Pak.
Wikipedia.
Dewhurst textbook of Obstetrics and Gynaecology edited by Keith Edmonds.
Guyton and Hall text book of Physiology.
Essentials of Medical Physiology by JAYPEE.
BD Chaurasia's Human Anayomy.
طالب دعا
حکیم عطاءالرحمن

No comments:

Post a Comment