Saturday, November 9, 2019

زنانہ نظام تولید

*** زنانہ نظام تولید ***
*** Female Reproductive System ***
قسط نمبر 5
*** قاذف نالیاں***
***Fallopian Tubes ***
قاذف نالی یا Fallopian Tubes یہ دونوں نالیاں جو مبیضین بھی کہلاتی ہیں تعداد میں دو عدد ہوتی ہیں جو کہ رحم کی طرف رباط عریض Broad Ligament کے ساتھ ساتھ گزرتی ہیں۔ یوٹرس یا رحم سے نکل کر یہ سائڈ کو اور پیچھے کو جاکر رباط عریض کی پچھلی دیوار سے نکل کر انڈے دانی میں پہنچ کر Peritoneal Cavity میں جاکر کھلتی ہیں ان کی کل لمبائی تقریبا دس سینٹی میٹر یا چار انچ ہوتی ہے اس کے مختلف حصے ہوتے ہیں ایک حصہ رحم کی دیوار میں ہوتا ہے دوسرا حصہ جس کا سوراخ کافی کشادہ ہوتا ہے Ampula کہلاتا ہے ہے جو حصہ آخر میں ہوتا ہے Infundibulum کہلاتا ہے اس کے سر پر پھول کی پنکھڑیوں کی طرح شاخ بنی ہوتی ہین۔ ان ٹیوبوں کا کام انڈے دانی سے انڈے کو رحم کے اندر پہنچانا ہوتا ہے
** پستان **
چھاتیاں یا پستان جو کے نالی دار غددوں کی ایک قسم ہے بنیادی طور پر مرد اور عورت دونوں میں پائی جاتی ہیں لیکن ان کی نشوونما کچھ مخصوص ھارمونز پر انحصار کرتی ہے اگر جسم میں وہ خاص ھارمون پائے جاتے ہیں تو ان کی مزید نشوونما ہو سکتی ہے اور اگر نہیں پائے جاتے تو وہ نشوونما نہیں ہوتی ہے چونکہ یہ مخصوص ہارمون عورتوں میں پائے جاتے ہیں اس وجہ سے عورتوں میں پستان کا سائز مردوں کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ چوونکہ مردوں میں یہ مخصوص ہارمون نہیں پائے جاتے ہیں اس لیے یہ چھوٹی ہی رہ جاتی ہیں لیکن اگر خدانخواستہ کسی مرد میں کسی بیمای کی صورت میں یہ ھارمون پیدا ہونے شروع ہو جائیں تو مردوں میں بھی چھاتیوں کا سائز بڑھ جاتا ہے۔
یہ پستان چھاتی میں سامنے کی طرف پائے جاتے ہیں تعداد میں دو ان کا ابھار دوسری پسلی سے لے کر چھٹی پسلی تک ہوتا ہے جبکہ سائیڈوں میں سینے کی ہڈی کے کنارے سے شروع ہو کر بغل کے درمیانی لائن تک پہنچ جاتی ہے
پستانوں کے عین وسط میں ایک بھورے رنگ کا گول سا نشان ہوتا ہے اس بھورے رنگ کے اس حصے کو ایری اولا کہتے ہیں۔ اس گول رنگ دار حصے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا ابھار ہوتا ہے اسے نپل کہتے ہیں۔
ایری اولا کے نیچے دودھ پلانے والی نالیوں کا اجتماع ہوتا ہے اور یہ نالیاں نپل میں آ کر کھلتی ہیں جو کہ ایک چھلنی دار سوراخ ہوتا ہے ۔بچہ اسی نپل کو منہ میں لے کر چوستا ہے۔اسی نپل کے ذریعے دودھ بچے کی منہ تک جاتا ہے۔
شروع میں بچے کی پیدائش کے بعد اسی نپل سے بچائے دودھ کے بجائے کلاسٹرم نکلتا ہے۔ یہ گاڑھا دودھ یا کلاسٹرم اس انداز میں زیادہ مفید اور بہتر ہے کہ اس میں پروٹین کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے
اگر ہم چند چھاتیوں کا خورد بینی مشاہدہ کریں تو چھاتی میں بہت ساری دودھ بنانے والی چھوٹی چھوٹی غدودیں نظر آتی ہیں۔ یہ پوری چھاتی میں پھیلی ہوتی ہیں۔ہر ایک غدود سے دودھ لے جانے والی نالی نپل کی طرف جاتی نظر آتی ہے اور ان غدودوں کے درمیان میں چربی کی کثیر مقدار ہوتی ہے۔ اس چربی اور غدودوں کی تعداد عورت کی چھاتی کے سائز کا تعین کرتی ہے
ہم دیکھتے ہیں کہ بلوغت کے زمانہ میں یا حمل اور دودھ پلانے کی زمانہ میں چھاتیوں کا سائز بڑا ہوتا ہے جبکہ بچپن اور بڑھاپے میں ان کا سائز کم ہو جاتا ہے۔
بلوغت کے وقت انسانی دماغ میں موجود پچوٹری گلینڈ کے ھارمون ایف ایس ایچ کے زیر اثر بیضہ دانی ایک ھارمون ایسٹروجن خارج کرتی ہے۔
اس کے زیر اثر پستان میں گلینڈز کی نالیاں نشوونما پاتی ہیں اور فائبر ٹشو کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔
جب ماہواری کا نظام شروع ہوتا ہے تو پستان میں مزید تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ماہواری میں بیضہ خارج ہونے کے بعد کارپس لیوٹئیم Corpus Luteum رہ جاتا ہے۔ جو کہ پروجیسٹرون نامی ھارمون خارج کرتی ہے۔ اس ھارمون کے زیر اثر پستان میں چربی جمع ہوتی ہے اور پستان اپنی بلوغت والی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مختلف حالتوں میں پستان کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔
1.. حمل کے دوران
حمل کے دوران کارپس لیوٹئیم سے پروجیسٹرون خارج ہوتا ہے۔جبکہ پلیسنٹا Placenta سے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون دونوں خارج ہوتے ہیں۔یہ ھارمون پستان کو مزید نشوونما دیتے ہیں۔ غدودوں کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ کام شروع کر دیتے ہیں
2.. بچے کی پیدائش کے بعد
بچے کی پیدائش کے بعد ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار پلیسینٹا کی اخراج کے باعث کم ہوجاتی ہے جس سے ہائپوتھیلمس سے خارج ہونے والا ایک ہارمون Prolactin Inhibiting Factor کم ہو جاتا ہے جس کے بعد پچوٹری غدود سے Prolactin پرولیکٹین نامی ھارمون خارج ہونا شروع ہو جاتا ہےپ یہ ہارمون پستانوں میں موجود غدودوں کو دودھ پیدا کرنے کے لئے تیار کرتا ہے دودھ بنانے کے لیے ضروری تمام اجزاء خون سے حاصل ہوتے
3..دودھ پلانے کا عرصہ
دودھ پلانے کی عرصہ میں پستانوں سے مسلسل دودھ خارج ہوتا رہتا ہے جب بچہ دودھ پی رہا ہوتا ہے تو ماں کی چھاتی سے احساسات دماغ میں موجود ھائپوتھیلسمس کو تحریک کرتے ہیں جو پچوٹری کے دونوں حصوں کو تحریک دیتا ہے ۔ پچوٹری کے اگلے حصے سے پرولیکٹین ھارمون خارج ہو کر دودھ بنانے میں مدد کرتا ہے۔ تو اس کے پچھلے حصے سے آکسی ٹوسن خارج ہوتا ہے جو پستان میں غدودوں کے ساتھ موجود موجود غیر ارادہ عضلاتی خلیات کو تحریک دیتا ہے جس سے دودھ پستان سے خارج ہونا شروع ہو جاتا
پیدائش کے تقریبا تین چار گھنٹوں کے بعد بچے کو غذا کی ضرورت صرف 10 ملی لیٹر دودھ ہوتی ہے جو پیدائش کے فوراً بعد ماں کے پستانوں میں موجود ہوتا ہے لہذا بچے کو پیدائش کے بعد دو تین گھنٹوں میں ہی پستانوں سے لگا دینا چاہیے بچے کا پستانوں سے دودھ پینا دودھ بننے کے عمل کو باقاعدہ بنا دیتا ہے اور بچے کا ہر بار دودھ پینا مزید دودھ بننے کے لیے ایک تحریک کا کام کرتا ہے
اس کی پیداوار پرولیکٹین اور آکسی ٹوسن ھارمون سے قائم رہتی ہے جب بچہ دودھ پیتا ہے تو اعصاب کے ذریعے پیغامات ہائپوتھیلامس تک پہنچتے ہیں تو پچوٹری کے پچھلے حصے سے آکسی ٹوسن خارج ہونے لگتا ہے جس سے پستان سے دودھ خارج ہونے لگتا ہے۔
4..دودھ پلانے کے عرصہ کے بعد جب بچے کا دودھ چھڑایا جاتا ہے تو ہائپو تھیلامس سے پرولیکٹن پیداوار کو بند کرنے والا فیکٹر دوبارہ خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے پرولیکٹن کی مقدار کم ہوجاتی ہے ۔ علاؤہ ازیں حیض دوبارہ شروع ہونے سے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار بڑھ جاتی ہے ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پستان کے غدودی حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
سن یاس میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی پیداوار ختم ہو جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے۔ جس سے پستان سکڑ جاتے ہیں اور ان میں چربی کی مقدار کم ہو جاتی ہے
(جاری ہے)
طالب دعا
حکیم عطاءالرحمن
۔

No comments:

Post a Comment