Saturday, November 9, 2019

* نظام تولید ***

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے.
*** Reproductive System ***
*** نظام تولید ***
*
قسط نمبر 4 *
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے۔
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثٰی ط ہ
ترجمہ:۔ کیا وہ ایک حقیرپانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادرمیں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھروہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ تعالی نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔
ملاحظہ فرمایئے کہ یہاں ایک بار پھر یہ بتایا گیاہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید (جس کے لیے عربی عبارت "نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ" وارد ہوئی ہے ) جو مرد کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
برصغیرمیں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں کو پوتیوں سے زیادہ پوتوں کا ارمان ہوتا ہے۔ اور اگر بہو کے ہاں بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پیدا ہو رہی ہوں تو وہ انہیں اولادِ نرینہ پیدا نہ کر سکنے پر طعنہ دیتی ہیں۔ اگر انہیں صرف یہی پتہ چل جاتا کہ اولادکی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھر بھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو اُنہیں چاہیے کہ وہ (اولادِنرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کی بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دار ہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
* جنینی مراحل *
(Embryological stages)
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍٍ ہ ثُمَّجَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَ ارٍٍ مَّکِیْنٍٍ ہ ثُمَّ خَلَقْنَا ا لنطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَْْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْ نَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰ خَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ہ ط[12]
ترجمہ:۔ اوریقینا ہم نے انسا ن کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (رحم مادر) میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو خون کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنایا پھرہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنادیا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نئی صورت دے دی۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیداکرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مائع کی حقیر مقدار سے تخلیق کیا گیا جسے امن کی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ مضبوطی سے جمایا ہوا (خوب مستحکم یا ٹھہرایا گیا) جس کے لیے عربی لفظ قرار مکین استعمال ہوا ہے۔ رحم مادر پچھلی جانب سے ریڑھ کے مہروں کے ستوں سے اچھی طرح محفوظ کیا گیا ہوتا ہے جسے کمر کے پٹھے مضبوطی سے سہارا دیتے ہیں۔ جنین ایمنیاٹک فلویڈ (amniotic fluid) سے بھرے ایمنیاٹک سیک (amniotic sac) سے مزید محفوظ بنایا گیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جنین (Fetus) کی ایک بہترین محفوظ دینے کی جگہ ہوتی ہے۔ سیال (fluid) کی اس قلیل مقدار کو 'علقہ' میں تبدیل کیا جاتاہے یعنی ایسی چیز جو چپک جاتی ہے۔ اس سے جونک (Leech) جیسی چیز بھی مراد ہے۔ یہ دونوں تعریفیں سائنسی طور پر قابل قبول ہیں کیونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں جنین (رحم مادر کی) دیوار سے چپک جاتا ہے اور شکل کے لحاظ سے جونک سے بھی مشابہ ہوتاہے۔ یہ جونک ہی کی طرح رویہ رکھتا ہے ( خون چوسنے والا) اور اپنی خونی رسد ناف کے ذریعے ماں سے حاصل کرتاہے۔
'علقہ' کا تیسرا مطلب ہے جما ہوا خون۔ اس علقہ کے مرحلے کے دوران جو حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر محیط ہوتا ہے خون بند نالیوں میں جم جاتا ہے چنانچہ جنین جونک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آسانی سے دستیاب ہونے والے اس قرآنی علم کا سائنسی دریافتوں کے لیے انسانی محنت کے ساتھ موازنہ کرلیجئے۔
١٦٧٧ء میں ہیم اور لیون ہک (hamm& leewenhoek) وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے ایک خوردبین کے ذریعے اسانی تولیدی خلیوں کا مشاہدہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سپرم کے اندر انسان کا ایک مختصر نمونہ ہوتاہے۔ جو ایک نوزائیدہ بچے کی شکل پانے کے لیے رحم کے اندر نشو و نما پاتا ہے۔ یہ پرفوریشن تھیوری (perforation theory) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بیضہ (ovum) یعنی مادہ تولیدی مادہ) سپرم (sperm) سے جسامت میں بڑا ہوتاہے تو ڈی گراف (De Graf)اور دوسرے سائنسدانوں نے سوچاکہ جنین (foetus) ایک چھوٹے نمونے کی شکل میں بیضہ کے اندر موجود ہوتا ہے۔ بعد ازاں اٹھارویں صدی میں ماپر چو یئس (Maupertuis) نے مادرپدر دوطرفہ وراثت کا نظریہ پیش کیا۔
'علقہ' ' مُضغہ' میں تبدیل ہوتاہے۔ جس کا مطلب ہے ایسی چیز جو چبائی گئی ہو (جس پر دانتوں کے نشان ہو) اور ایسی چیز بھی جو نرم چپکے والی ہو اور گم (gum)کی طرح منہ میں رکھی جا سکے۔ یہ دونوں وضاحتیں سائنسی طورپردرست ہیں پروفیسر کیتھ مور (keith moore) نے پلاسٹر سیل(plaster seal) کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جنین کے ابتدائی مرحلے کی جسامت اور شکل دی اور اسے مضغہ بنانے کے لیے دانتوں کے درمیان چبایا۔ انہوں نے اس کا تقابل جنین کے ابتدائی مرحلے کی تصاویر سے کیا۔ دانتوں کے نشان سومائٹس(somites) سے مشابہ تھے جو ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی بناوٹ ہے۔ یہ مضغہ ہڈیوں ( عظام) میں تبدیل ہوتاہے ہڈیاں سالم گوشت یا پٹھوں (لحم) سے لپٹی ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالی اس کو ایک دوسری تخلیق میں ڈال دیتا ہے۔ پروفیسر مارشل جانسن (Marshal Johnson) جو امریکا کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فلاڈلفیا امریکا کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ابتدا میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ۖکے پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو۔ یہ یاد دلانے پر کہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمدۖ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں۔ پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ (image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور اس کی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّرمیں کوئی تنازع د کھائی نہیں دیتا کہ جب محمدۖ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرما تھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشو و نما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر2،وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اس کی بنیادجداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یا ساختوں پر ہے۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی قبل از ولادت نشو و نما کے مختلف مراحل کی علمبردار ہیں اور ایسی سائنسی توضیحات (وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔ جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔ رحم مادرمیں انسانی جنین کی نشو و نما کے مختلف مراحل درج ذیل آیات مبارکہ میں بھی بیان فرمائے گئے ہیں:
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُنْثٰی ط ہ
ترجمہ: کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا ء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔
الَّذِ یْ خَلَقَکَ فَسَوّٰ کَ فَعَدَ لَکَ ہ فِیْ اَیِّ صُوْ رَ ةٍ مَّا شَآ ء رَ کَّبَکَ ط
ترجمہ۔ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، تجھے تناسب سے بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کوجوڑ کرتیار کیا۔
نیم مکمل اورنیم نامکمل جنین(Embryo)
اگر' مضغہ' کے مرحلے پر جنینن کو درمیان سے کاٹاجائے اور اس کے اندرونی حصّوں کا مطالعہ کیاجائے تو ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ (مضغہ کے اندرونی اعضاء میں سے ) بیشتر پوری طرح بن چکے ہیں جبکہ بقیہ اعضاء اپنی تکمیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پروفیسر مارشل جونسن (Prof. Marshal Johnson) کا کہنا ہے کہ اگر ہم پورے جنین کو ایک مکمل بنے ہوئے وجود کے طورپر بیان کریں تو ہم صرف اسی حصّے کی بات کر رہے ہوں گے جو پہلے سے مکمل ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے نامکمل وجود کہیں تو پھر جنین کے ان حصّوں کا حوالہ دے رہے ہو گے جو ابھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوئے بلکہ تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس موقع پر جنین کو کیا کہنا چاہیے : مکمل وجود یا نامکمل وجود؟ جنینی نشو و نما کے اس مرحلے کی جو وضاحت قرآن پاک نے ہمیں دی ہے اس سے بہتر کوئی اور ممکن نہیں۔ قرآن پاک اس مرحلے کو نیم مکمل اورنیم نامکمل قرار دیتا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَ ابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط ہ
ترجمہ: ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل (بھی) ہوتی ہے اور نا مکمل بھی۔
سننے اور دیکھنے کی حِسّیات(Senses)
رحم مادرمیں نشو و نما پانے والے انسانی وجود میں سب سے پہلے جو حس جنم لیتی ہے وہ سننے کی حس (حسِ سامعہ) ہوتی ہے۔ 24 ہفتوں بعد کا پختہ جنین ( foetus) آواز یں سننے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر حمل کے 28 ویں ہفتے تک دیکھنے کی حسِ( بصارت) بھی وجود میں آجاتی ہے اور پردہ چشم ( Retina) روشنی کے لیے حساس ہو جاتاہے ان مراحل کو قرآن پاک یوں بیان فرماتاہے؛۔
وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَ الْاَفِْئدَ ةَ ط
ترجمہ:۔ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی۔
اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا جٍٍٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرً ا ہ
ترجمہ۔: ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس فرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَا لْاَ فْدَئِ ةَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ہ
ترجمہ:۔ وہ اللہ ہی ہے جس ے تمہیں دیکھنے اورسننے کی قوتیں دیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلا حیت دی ہے۔(لیکن) تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔
ملاحظہ فرمائیے کہ تمام آیات مبارکہ میں حِس سماعت کا تذکرہ حسِ بصارت سے پہلے آیا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ قرآن پاک کی فراہم کردہ توضیحات کے جدید جننیات میں ہونے والی دریافتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔
Refferences :
Quraan Pak.
Wikipedia.
Dewhurst textbook of Obstetrics and Gynaecology edited by Keith Edmonds.
Guyton and Hall text book of Physiology.
Essentials of Medical Physiology by JAYPEE.
BD Chaurasia's Human Anayomy.
طالب دعا
حکیم عطاءالرحمن

No comments:

Post a Comment